the etemaad urdu daily news
آیت شریف حدیث شریف وقت نماز
etemaad live tv watch now

ای پیپر

انگلش ویکلی

To Advertise Here
Please Contact
editor@etemaaddaily.com

اوپینین پول

کونسی کرکٹ ٹیم آئی پی ایل 2025 کی ٹرافی جیتے گی؟

رائل چیلنجرز بنگلورو
گجرات ٹائٹنز
پنجاب کنگس
شامی جدوجہد کے بارے میں جاننے کے لئے شام کی سیاسی تاریخ کا جاننا ضروری ہے اس لئے پہلے شام کی سیاسی تاریخ پہ ایک مختصر نظر ڈالتے ہیں.

ملک شام 1946 میں ایک آزاد جمہوری ریاست بنا لیکن 1949 میں پے در پے ہونے والی 3 بغاوتوں کے بعد ملک میں ایک فوجی حکومت قائم ہو گئی.
1954 میں ایک اور بغاوت کے نتیجے میں اس فوجی حکومت کا خاتمہ ہو گیا.
1958 سے 1961 تک شام اور مصر متحدہ عرب جمہوریہ کو نام سے ایک سیاسی اتحاد کے طور پہ چلتے رہے جب 1961 میں شام اس اتحاد سے الگ ہو گیا.
اس دوران شام کا نظامِ حکومت صدارتی بنا دیا گیا.
1963 میں ایک بغاوت کے نتیجے میں ایک قوم پرست اشتراکی جماعت بعث پارٹی اقتدار میں آئی.اس حکومت میں حافظ الاسد (جو موجودہ بشار الاسد کا باپ ہے) کو شامی فضائیہ کی کمان دے دی گئی.
1966 میں بعث جماعت کے اندر بغاوت ہوئی اور پارٹی کے سربراہ مائیکل افلاق اور دوسرے پرانے لیڈروں کو ہٹا دیا گیا اور بعث پارٹی کی لیڈرشپ اور اس کے نتیجے میں شامی حکومت پہ فوجی حمایت یافتہ صالح جدید کا کنٹرول ہو گیا اور جرنل حافظ الاسد اس نئی حکومت کا وزیرِ دفاع بنا.
1971 میں ایک اور بغاوت کے بعد حافظ الاسد نے صالح کو اقتدار سے الگ کر دیا اور بعث پارٹی کا سربراہ بن کر ملک شام کے اقتدار پہ قابض ہو گیا اور اپنی موت (2000) تک شام پہ قابض رہا. حافظ الاسد کا اقتدار ایک بادشاہی نظام کی طرح تھا جس کا مرکز حافظ الاسد خود تھا.اپنے اقتدار کے شروع میں اس نے اپنے اقتدار کو جمہوری رنگ دینے کے لئے اپنی کیبنٹ میں مختلف طبقے کو لوگوں کو نمائندگی دی لیکن تمام اختیارات اور فیصلہ سازی کا اختیار اس نے اپنے ہاتھ میں رکھا.
اپنے اقتدار کے شروع (1971) سے لے کر اپنی موت (2000) تک حافظ الاسد نے ملک میں ایمرجنسی نافظ کئے رکھی. ایمرجنسی کے قانون کے نام پہ ملک میں 3 سرکاری اخبار تھے، سیاسی مخالفین پہ ملٹری کورٹس میں مقدمے کیے جاتے اور اکثر سیاسی مخالفین بنا کسی ملٹری یا سول ٹرائل کے غائب کر دئے جاتے. ہیومن رائٹس کی رپورٹس کے مطابق حافظ کے اقتدار میں 17000 مخالفین بنا کسے ٹرائل کے قتل کر دئے گئے. 5 یا 5 سے ذیادہ افراد کا ایک جگہ جمع ہونا جرم تھا. ہر 7 سال کے بعد حافظ الاسد صدارت کے لئے ریفرنڈم کرواتا اور دوبارہ صدر منتخب ہو جاتا. 4 دفعہ کرائے جانے والے ریفرنڈم میں حافظ الاسد نے 3 بار %100 ووٹ لئے اور ایک بار %99 سے ذیادہ ووٹ حاصل کئے.
ایسے نتائج سے اُن انتخابات کی "شفافیت" کا اندازہ لگانا ذیادہ مشکل نہیں.
شام آبادی میں تناسب کے اعتبار سے %74 آبادی سنی ہے، %12 آبادی علوی شیعہ ہے، %10 عیسائی ہیں اور باقی دوسری اقلیتیں آباد ہیں. حافظ



الاسد ایک علوی شیعہ تھا اور اس نے اپنے اقتدار میں ملک کے معاشرے اور اداروں کو مکمل طور پہ فرقوں کی بنیاد پہ تقسیم کر دیا اور آرمی، انٹیلیجنس اور سیکیورٹی کے تمام اداروں میں (علوی) شیعہ مذہب کے لوگوں کو تعینات کر دیا گیا. جو افراد ملک کا نظام چلا رہے تھے ان کی اکثریت حافظ الاسد کے رشتہ داروں پہ مشتمل تھی. سنیوں کو بھی مطمئن رکھنے کے لئے کچھ عہدے دیے گئیے لیکن کاروبارِ حکومت میں ان کا کوئی حصہ نہ تھا. مثال کے طور پہ شامی فضائیہ کا سابقہ سربراہ جمیل حداد(سنی) کوئی بھی حکم انٹیلیجنس چیف محمد الخولی(شیعہ) کے علم میں لائے بنا نہیں کر سکتا تھا. تمام معملات علوی رشتہ داروں کے ہاتھ میں تھے لیکن حتمی طاقت حافظ الاسد کے ہاتھ میں تھی.

ملک میں کسی قسم کا کوئی اختلاف برداشت نہیں کیا جاتا تھا. 1982 میں اسی حافظ الاسد کے اقتدار میں ہی شام کے شھر حماء میں اہل سنت کا قتلِ عام کا واقعہ پیش آیا جب شامی فوج 27 روز تک شھر کا محاصرہ کر کے لوگوں کا خون بہاتی رہی. شامی ہیومن رائٹس کے مطابق اس قتلِ عام میں 40،000 لوگ شھید کئے گئے. اور یہ بات اب جانتے ہیں کی اصل میں ہونے والے واقعات ان واقعات سے کہیں ذیادہ ہوتے ہیں جن کو ایسے ادارے رپورٹ کرتے ہیں. اس لئے اصل شھدا کی تعداد 40،000 سے کہیں ذیادہ ہو سکتی ہے. حافظ الاسد نے اپنے اقتدار کے دوام کے لئے ہر ہاتھ کو کچل ڈالا ہر آواز کو دباء ڈالا. موجودہ شامی بغاوت چند مظالم کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ سالوں سے جاری مظالم، غلامی اور مسلکی تعصبات کے خلاف بغاوت اور جہاد ہے.
حافظ الاسد 10 جون 2000 کو دمشق میں ہارٹ اٹیک سے مر گیا اور اس کے مرنے کے بعد اس کا دوسرا بیٹا بشارالاسد شام کے تخت پہ براجمان ہوا.
حافظ کا اقتدار شام میں علوی شیعوں کا راج تھا. اس کے بیٹے بشار الاسد کے اقتدار میں آنے سے بھی حالات میں کوئی فرق نہیں پڑا بلکہ اب صورتحال بہت بھیانک ہو گئی ہے.

حافظ الاسد کے بعد شام کا تاج اس کے بیٹے بشارالاسد کے سر پر سجا. شامی حکومت کے جابرانہ رویّے کی وجہ سے عوام میں شروع ہی سے ایک عدم اطمینان اور نفرت سلگ رہی تھی. یہ نفرت اُن علاقوں میں شدید ترین تھی جہاں غربت ذیادہ تھی اور یہ علاقے ذیادہ تر اہل سنت آبادی پہ مشتمل تھے. اس کی ایک مثال درعاء اور حمص کے علاقے ہیں.
شیعہ قوتوں نے اقتدار میں رہتے ہوئے بڑی چالاکی سے سنی آبادی کو سماجی و اقتصاری لحاظ سے پیچھے رکھا اور کاروبارِ حکومت اور دوسرے اہم شعبہ ہائے زندگی میں شیعہ آبادی کو نوازا گیا.اس طرح شام میں اہم ترین فیصلہ کن عہدوں پہ شیعہ مسلکی فرقہ پرست قابض ہو گئے.بشارالاسد ایک نااہل اور کمزور حکمران ثابت ہوا .
اس پوسٹ کے لئے کوئی تبصرہ نہیں ہے.
تبصرہ کیجئے
نام:
ای میل:
تبصرہ:
بتایا گیا کوڈ داخل کرے:


Can't read the image? click here to refresh
خصوصی میں زیادہ دیکھے گئے
To Advertise Here
Please Contact
editor@etemaaddaily.com
To Advertise Here
Please Contact
editor@etemaaddaily.com
To Advertise Here
Please Contact
editor@etemaaddaily.com

موسم کا حال

حیدرآباد

etemaad rishtey - a muslim matrimony
© 2025 Etemaad Urdu Daily, All Rights Reserved.